وہ کبھی لوٹ کر چلا آئے یہ میں اب فرض بھی نہیں کرتا

وہ شکوے جو میں نے نہیں کیے ساری زندگی تم پر قرض رہیں گے

وہ بچھڑا تو کبھی صبح نہ ہوئی رات ہی ہوتی گئی ہر رات کے بعد

نصیب میں لکھی گئی اذیتیں سہے بغیر ہم مر نہیں سکتے

مدت ہوئی بچھڑے ہوئے اک شخص کو لیکن اب تک در و دیوار پہ خوشبو کا اثر ہے

لہجے سمجھ آ جاتے ہیں مجھے۔ بس کسی کو شرمندہ کرنا اچھا نہیں لگتا

کوئی تو اس کو پوچھے کے پہلے وہ آۓ گا یا موت

کرو گے ایک دن تم بھی ہم سے ملنے کی آرزو پاؤ گے ہم کو بس کبھی خیالوں میں کبھی سوالوں میں

کبھی لگتا ہے پتھر بن گیا ہوں میں کبھی یونہی ٹوٹ کر رونے کو من کرتاہے

زندگی مجھ سے کہتی ہے ہر دم اداس مت رہا کر میں کہتی ہوں مجھے اک وجہ تو دے ہنسنے کے لیے

زبردستی کی نزدیکیوں سے سکون کی دوریاں بہتر ہیں۔

رابطے راستے واسطے کچھ نہیں پہلے جیسا بس دل اداس ہے اور بہت اداس ہے

خاموشیاں بے وجہ نہیں ہوتی – کچھ درد آواز چین لیتے ہیں

جن لوگوں کے کہنے پہ تم نے مجھے چھوڑ دیا تھا آج وہی بتا رہیں ہیں کہ تم اکثر اداس رہتے ہو

جا ان سے پوچھ ان کے دیدار کی قیمت اگر وہ جان بھی مانگے تو سودا کر آنا

بہت قریب آکہ بتایا اس نے دورا ایسے جاتے ہیں

بدل دیا خود کو اتنا لوگ ترسے گے پہلے سا دیکھنے کو

اے جانے والے تجھ کو اتنا بھی احساس نہیں کیا گزرے گی اس دل پہ جس کو جدائی راس نہیں

اداس دل کی اداس باتیں سمجھنے والا کوئی تو ہوتا

‏اپنی تصویر کو رکھ کر تیری تصویر کے ساتھ میں نے اک عمر گزاری بڑی تدبیر کے ساتھ

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here