نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور ن

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

محبت کے لئے دل ڈھونڈھ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here