اس قسم کی منافقت میرے لیے ممکن نہیں۔ دنیا آپ کے مزاج کی پابند نہیں ہے۔

اس کے لہجے میں برف تھی لیکن چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے

اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں خشک ہونٹوں پر لرزتی اک دعا رہ جائے گی

بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی

بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

چہرے میرے زلف کو پھلاؤ کس دن کیا روز گراجتے ہو بارس جاو کسی دن

خواب کے نشے میں جھکتی جائے گی چشم قمر رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی

رو بہ رو منظر نہ ہوں تو آئینے کس کام کے ہم نہیں ہوں گے تو دنیا گرد پا رہ جائے گی

سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے

سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here