اپنا ماضی اپنا گریبان اور اپنا ضمیر سبق لینے کی بہترین جگہوں میں سے ہیں

انداز تھوڑا الگ رکھتا ہو اس لیے لوگوں کو غلط لگتا ہوں

برے ہی ٹھیک ہیں ہم اچھے بن گے تو کون کرے گا باتیں ہماری

بے وقت، بے وجہ، بے حساب مسکرا دیتا ہوں آدھے دشمنوں کو تو یوں ہی ہارا دیتا ہوں

پہچان ایسے ہی نہیں بن جاتی ہزاروں مخالف کرنے پڑتے ہیں

پیدا تو ہم بھی شریف ہی ہوۓ تھے پر لوگ شرافت سے جینے نہیں دیتے

‏تیرے غرور کے معیار سے بہت بلند ہوں میں تیری پسند کا کیا ذکر ،خود کوبہت پسند ہوں میں

جن کو تم استاد مانتے ہو وہ ہمارے نالائق شاگرد ہیں

‏جو کھوٹے سکے چلتے نہیں بازار میں وہ خامیاں نکال رہے ہیں ہمارے کردار میں

زمانے میں آئے ہو تو جینے کا ہنر رکھنا دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں بس اپنوں پہ نظر رکھنا

سلیقہ جن کو سکھایا تھا ہم نے چلنے کا وہ لوگ آج ہمیں دائیں بائیں کرنے لگے

شاید تم ناواقف ہو میرے مزاج سے تیری توقع سے بھی زیادہ سر پھرا ہوں

صرف ان کے لیے عام رہتا ہوں جو میرے لیے خاص ہیں

کہانی ختم کہاں ہوئی ہے ابہی تو آپ نے مجھے مرحوم لکھنا ہے

مجھے الحمداللٰہ بہت محبتیں ملی ہیں ان دو چار نفرتوں سے میرا کچھ نہیں جاتا

میرے دشمن تیرا احسان ہے مجھ پر ورنہ اپنے عیبوں پے میرا دھیان کہاں تھا پہلے

نام اور پہچان بھلے ہی چھوٹی ہو مگر خود کی ہونی چاہیے

نہ پیشی ہو گی نہ گواہ ہوگا اب جو بھی الجھے گا تباہ ھوگا

ہارا کر کوئی جان بھی لے لے تو منظور ہے مجھکو دھوکا دینے والوں کو میں پھر موقع نہیں دیتا

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سےہم نہیں

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here