اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
برتن مانجھ کر ماں دو چار بچے پال ہی لیتی ہے
مگر دو چار بچوں سے ایک ماں نہیں پالی جاتی
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میں نہیں اوڑھنی اچھی لگی
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں ماں دیکھی ہے
حالات برے تھے مگر رکھتی تھی نواب بنا کر
ہم غریب تھے یہ صرف میری ماں جانتی تھی
خدا کے بعد جس نے مجھے پورا کیا
اہل جہاں سنو وہ میری ماں ہے
دنیا بھر کی راحتیں اپنی جگہ
لیکن ہائے وہ ماں کے پہلو میں بیٹھنا
رہتے ہیں میرے ساتھ فرشتے دعاؤں میں
میں خوش نصیب ہوں میری ماں حیات ہے
سخت راتوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
سروں پہ اپنے بچوں کے ردائیں چھوڑ جاتی ہیں
کہ مائیں مر بھی جائیں تو دعائیں چھوڑ جاتی ہیں
سونا سونا سا مجھے گھر لگتا ہے
جب ماں نہیں ہوتی مجھے ڈر لگتا ہے
شام ڈھلے اک ویرانی سی ساتھ مرے گھر جاتی ہے
مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ماں مرجاتی ہے
کبھی جنت کا میں سوچوں تو ماں تم یاد آتی ہو
محبت لفظ جو پڑھ لوں تو ماں تم یاد آتی ہو
لاکھ ڈھونڈو گے تم آغوش محبت
بعد مرنے کے ماں نہیں ملتی
میری ماں آج بھی ان پڑھ ہے
ایک روٹی مانگوں تو دو لے آتی ہے
میں ماں کو بتاتا ہوں پریشانیاں اپنی
وہ ماتھا چوم کر کہتی ہیں خدا خیر کرے گا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف ایک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح
مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح