اے مجھ کو فریب دینے والے میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں

بھروسہ اور خوداعتمادی میں فرق ہے؛ خوداعتمادی اپنے آپ پر بھروسہ ہے، بھروسہ دوسروں پر۔

بھروسہ ایک سفر ہے، نہ کہ منزل؛ یہ بتدریج بڑھتا اور گہرا ہوتا ہے۔

بھروسہ ایک قوی دھاگہ ہے جو نظر نہیں آتا، لیکن مضبوطی سے باندھتا ہے۔

بھروسہ ایک موسیقی کی طرح ہے، جو دلوں کو مسرور کر دیتی ہے۔

بھروسہ بے زبان ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔

بھروسہ تھا بہت کیوں توڑ دیا تم نے رشتہ غیروں سے کیوں جوڑ لیا تم نے

بھروسہ ٹوٹنے پر جو درد ہوتا ہے، وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔

بھروسہ نازک پرندے کی طرح ہوتا ہے؛ ایک بار ڈر جائے تو پھر لوٹ کر نہیں آتا۔

بھروسہ وہ کمزور دھاگہ ہے جو ایک بار ٹوٹنے کے بعد پھر کبھی مضبوط نہیں ہوتا۔

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

جس طرح سے شیشے کا ٹکڑا کبھی اصل شکل میں واپس نہیں آتا، اسی طرح بھروسہ ٹوٹنے کے بعد کبھی پوری طرح بحال نہیں ہوتا۔

جھوٹ بھروسے کا قاتل ہے، جو اسے آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتا ہے۔

دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

عشق کو ایک عمر چاہئے اور عمر کا کوئی اعتبار نہیں

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں

وقت بھروسے کا امتحان ہوتا ہے؛ جتنا زیادہ وقت، اتنا مضبوط بھروسہ۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here